سمے سمے کی خلش میں ترا ملال رہے
جدائیوں میں بھی یوں عالمِ وصال رہے
Printable View
سمے سمے کی خلش میں ترا ملال رہے
جدائیوں میں بھی یوں عالمِ وصال رہے
انا کی جنگ میں ہم جیت تو گئے لیکن
پھر اس کے بعد بہت دیر تک نڈھال رہے
رہِ جنوں میں یہی زادِ راہ ہوتا ہے
کہ جستجو بڑھے دیوانگی بحال رہے
حسین راتیں بھی مہکیں تمہاری یادوں سے
کڑے دنوں میں بھی پل پل ترا خیال رہے
تو ایک بار ذرا کشتیاں جلا تو سہی
ہے کیا مجال کہ اک لمحہ بھی زوال رہے
اک عمر رہے ساتھ یہ معلوم نہیں تھا
وہ شخص ذرا سادہ و معصوم نہیںتھا
یہ بات کبھی اس کی سمجھ میں نہیںآئی
دل اس کا دوانہ تو تھا محکوم نہیںتھا
محرومی رہی وصل کی در پیش۔ بجا ہے
میں تیری جدائی سے تو محروم نہیں تھا
قسمت کے بہت تیز تھے ہم آپ سے پہلے
جو آپ نے کر ڈالا وہ مقسوم نہیں تھا
تم ہوتے تو ہم ہوتے نہ ہوتے تو نہ ہوتے
ایسا بھی کوئی لازم ملزوم نہیں تھا