مبادا بات بڑھ کر باعثِ تکلیف ہو جائے
وہیں پر ختم کر دیجے جہاں تک بات پہنچی ہے
Printable View
مبادا بات بڑھ کر باعثِ تکلیف ہو جائے
وہیں پر ختم کر دیجے جہاں تک بات پہنچی ہے
ابھی تو اس کی آنکھوں نے لیا ہے جائزہ دل کا
ابھی تو ابتدائے داستاں تک بات پہنچی ہے
عدم جھگڑا قیامت تک گیا ہے جرمِ ہستی کا
ذرا سی بات تھی لیکن کہاں تک بات پہنچی ہے
کہرا کے جھوم جھوم کے لا ، مسکرا کے لا
پھولوں کے رس میں چاند کی کرنیں ملا کے لا
کہتے ہیں عمرِ رفتہ کبھی لوٹتی نہیں
جا میکدے سے میری جوانی اٹھا کے لا
دیکھی نہیں ہے تو نے کبھی زندگی کی لہر
اچھا تو جا عدم کی صراحی اٹھا کے لا
خالی ہے ابھی جام ، میں کچھ سوچ رہا ہوں
اے گردشِ ایام! میں کچھ سوچ رہا ہوں
ساقی تجھے اک تھوڑی سی تکلیف تو ہوگی
ساغر کو ذرا تھام ، میں کچھ سوچ رہا ہوں
پہلے بڑی رغبت تھی ترے نام سے مجھ کو
اب سن کے ترا نام میں کچھ سوچ رہا ہوں
ادراک ابھی پورا تعاون نہیں کرتا
دے بادۂ گلفام ، میں کچھ سوچ رہا ہوں