بارشوں نے کام دریا کا کیا
کیا کریں گے اب کنارے ٹوٹ کر
Printable View
بارشوں نے کام دریا کا کیا
کیا کریں گے اب کنارے ٹوٹ کر
اک تمہارا عشق زندہ رہ گیا
مر گئے ہم لوگ سارے ٹوٹ کر
مجھ کو پھر اذنِ مسافت دے گئے
آسماں پر کچھ ستارے ٹوٹ کر
ہم سفالِ بے مرکب ہیں ندیم
گر رہے ہیں بت ہمارے ٹوٹ کر
بچھڑ کے تجھ سے کہاں دور ہم کو جانا ہے
یہی کہ شام سے پہلے ہی لوٹ آنا ہے
تو میری آنکھ کو پہنا لہو لہو آنسو
کہ پانیوں سے تو رشتہ مرا پرانا ہے
تمام شب کی تھکن کو اتارنے کے لیے
ہماری آنکھ میں اب چاند نے نہانا ہے
یہ چاہتوں کا نہیں نفرتوں کا قصہ ہے
ابھی تو نام کہانی میں تیرا آنا ہے
ابھی تو صبح کے آثار بھی نہیں جاگے
ابھی تو شور پرندوں نے بھی مچانا ہے
کبھی درخت کبھی جھیل کا کنارا ہے
یہ ہجر ہے کہ محبت کا استعارا ہے