روز ِ مولود سے، ساتھ اپنے ہوا، غم پیدا
لالہ ساں داغ اٹھانے کو ہوئے ہم پیدا
Printable View
روز ِ مولود سے، ساتھ اپنے ہوا، غم پیدا
لالہ ساں داغ اٹھانے کو ہوئے ہم پیدا
شبہ ہوتا ہے صدف کا مجھے ہر غنچے پر
کہیں موتی نہ کریں قطرہ ِ شبنم پیدا
چپ رہو، دور کرو، منہ نہ میرا کھلواؤ
غافلو! زخم ِ زباں کا نہیں مرہم پیدا
دوست ہی دشمن ِ جاں ہو گیا اپنا آتش
نوش وارو نے کیا یا اثر ِ سم پیدا
شب وصل تھی، چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا، خدا مہربان تھا
مبارک شب قدر سے بھی وہ شب تھی
سمر تک مرد مشتری کا قرآن تھا
وہ شب تھی کہ تھی روشنی جس میں دن کی
زمین پر سے اک نور تا آسمان تھا
نکالے تھے دو چاند اس نے مقابل
وہ شب صبح جنت کا جس پہ گماں تھا
عروسی کی شب کی حلاوت تھی حاصل
فرحناک تھی روح، دل شادمان تھا
بیان خواب کی طرح جو کر رہا ہے
یہ قصہ ہے جب کا کہ آتش جواں تھا