مسکراتے رہیں سینے کے دہکتے ہوئے داغ
دائم آباد رہے درد کی سرکار کا شہر
Printable View
مسکراتے رہیں سینے کے دہکتے ہوئے داغ
دائم آباد رہے درد کی سرکار کا شہر
خموشی بول اٹھے، ہر نظر پیغام ہو جائے
یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہو جائے
ستارے مشعلیں لے کر مجھ بھی ڈھونڈنے نکلیں
میں رستہ بھول جاؤں، جنگلوں میں شام ہو جائے
میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائی کے صحرا میں
خود اپنی چاپ سن کر لرز بر اندام ہو جائے
مثال ایسی ہے اس دورِ خرد کے ہوش مندوں کی
نہ ہو دامن میں ذرّہ اور صحرا نام ہو جائے
شکیبؔ اپنے تعارف کیلئے یہ بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے
دیکھتی رہ گئی محرابِ حرم
ہائے انسان کی انگڑائی کا خم
جب بھی اوہام مقابل آئے
مثلِ شمشیر چلی نوکِ قلم
پرِ پرواز پہ یہ راز کھُلا
پستیوں سے تھا بلندی کا بھرم
غم کی دیوار گری تھی جن پر
ہم وہ لوگ ہیں اے قصرِ اِرم