بارانِ کرم مرے لئے ہے
غیروں کے لئے عتاب سا وُہ
Printable View
بارانِ کرم مرے لئے ہے
غیروں کے لئے عتاب سا وُہ
ماجدؔ ہو یہ جُستجو مُبارک
ہاتھ آ ہی گیا سراب سا وُہ
کس اَن ہونی کے ہونے سے یُوں مطلعِ صدا انوار ہوئے
دیکھو تو بدن ہم دونوں کے کیسے باہم دوچار ہوئے
کمیاب تھی ساعتِ قرب تری کیا کُچھ نہ ہُوا جب دَر آئی
ہم چاند بنے ہم مہر ہوئے ہم نُور بنے ہم نار ہوئے
سادہ سا وُہ حرفِ اذن ترا اور مہلت پھر یکجائی کی
فرصت تو فقط اِک شب کی تھی پر دور بڑے آزار ہوئے
با وصفِ کرم، جو الجھن تھی وُہ اور کسی ڈھب جا نہ سکی
آخر کچھ وحشی جذبے ہی ہم دونوں کے غمخوار ہوئے
کیا چیت کی رُت اور کیا ساون جب سے دیکھا ہے اساڑھ ترا
سُونا ہے نگاہوں کا آنگن سب موسم اِس پر بار ہوئے
مُدّت سے ترستے تھے دِل میں جو لذّتِ یکدم کو ماجدؔ
تسکین ملے پر وُہ جذبے آخر کیوں پُر اسرار ہوئے
کس مہر کا ہے عکس کہ تیرے بدن میں ہے
جو حرفِ لطف ہے وہی کنجِ دہن میں ہے
دیکھے سے جس کے سِحر زدہ ہو ہر اک نگاہ
سربستگی سی کیا یہ ترے پیرہن میں ہے