آنکھوں سے میری ایک زمانے نے پڑھ لیا
خاموش داستاں کے چرچے بہت ہوئے
Printable View
آنکھوں سے میری ایک زمانے نے پڑھ لیا
خاموش داستاں کے چرچے بہت ہوئے
مثلِ سحاب رخ پہ ہوا کی اڑے تو کیا
میرے لئے تو دھوپ میں سایہ نہ کر سکے
دل یوں ترے خیال سے غافل نہ ہو سکا
دھڑکن پہ تیرے لمس کے نقشے بنے رہے
خاموش شب میں سسکیاں گونجی ہیں صبح تک
کس درجہ روئی ہوں مرے تکیے سے پوچھ لے
جنھیں نگاہ اٹھانے میں بھی زمانے لگے
وہ جا بجا میری تصویر کیوں سجانے لگے
فریفتہ ہوں میں اس پر تو وہ بھی مجھ پر ہے
کہ اپنے خواب میں اکثر مجھے بلانے لگے
یہ دل عجیب ہے غم کی اٹھا کے دیواریں
ترے خیال کے آتے ہی ان کو ڈھانے لگے
تُو اپنی عمر کی محرومیاں مجھے دے دے
میں چاہتی ہوں تری روح مسکرانے لگے
یہ کیسا ہجر ہے جس پر گمان وصل کا ہے
تُو مرے پاس رہے جب بھی اٹھ کے جانے لگے
خدا کرے کہ کہیں تجھ کو تیری فطرت سا
کوئی ملے کبھی پھر میری یاد آنے لگے