ٹوٹا ہوا ہے ایسے تعلق جہان سے
ملنے پہ آشنا بھی شناسا نہیں لگا
Printable View
ٹوٹا ہوا ہے ایسے تعلق جہان سے
ملنے پہ آشنا بھی شناسا نہیں لگا
جاتے ہوئے کو دور تلک دیکھتے رہے
ایسے کہ پھر وہ لوٹ کے آتا نہیں لگا
اک دن ہوئے تھے گرمیِ بازار کا سبب
پھر اپنے نام پر وہ تماشا نہیں لگا
ویسے تو اپنی ذات میں سارے اکائی ہیں
اپنی طرح سے کوئی بھی تنہا نہیں لگا
دل کے معاملے میں تھی وابستگی عجیب
جب کہہ دیا پرایا تو اپنا نہیں لگا
کھلا جو خواب میں کل شب گلستاں
وہی تبدیل تم میں ہو گیا ہے
سر آئینہ ہوتا تھا مرا عکس
کہیں تبدیل تم میں ہو گیا ہے
تسلسل سے سفر میرے لہو کا
ہزاروں میل تم میں ہو گیا ہے
ذرا اپنے بدن کو چھو کے دیکھو
کوئی تحلیل تم میں ہو گیا ہے
دور دنیا سے کہیں ۔۔ دل میں چھپا کر رکھوں
تم حقیقت ہو مگر خواب بنا کر رکھوں