سنا ہے کل پہ کسی اور کا ہے نام رقم
تو گویا آج کا ہر مسئلہ ہے میرے لئے
Printable View
سنا ہے کل پہ کسی اور کا ہے نام رقم
تو گویا آج کا ہر مسئلہ ہے میرے لئے
کوئی گلی کوئی موسم کوئی مہینہ ہو
تلاشِ ذات ہی اک مشغلہ ہے میرے لئے
میں لڑ رہی ہوں اکیلی کئی محاذوں پر
یہ خود سے جنگ تو اک مرحلہ ہے میرے لئے
کوئی چہرہ ، شناس سا گزرا
وہ یہیں ہے قیاس سا گزرا
اور اک رات کاٹ لی میں نے
اور اک دن اداس سا گزرا
درد آنکھوں سے پھوٹ کر نکلا
پل کوئی نا سپاس سا گزرا
جانے کس سچ کا سامنا کل ہو
شب کے دل میں ہراس سا گزرا
پھر سر آئینہ اداسی کا
دیدۂ التماس سا گزرا
زخم کی گہرائی سے لپٹے رہے
رات بھی تنہائی سے لپٹے رہتے
سی کے اپنے لب ترے اعزاز میں
جا بجا رسوائی سے لپٹے رہے