ابھی تک نم ہے یہ تکیے کا کونا
یہ کیسا درد کوئی رو گیا ہے
Printable View
ابھی تک نم ہے یہ تکیے کا کونا
یہ کیسا درد کوئی رو گیا ہے
خدا جانے کبھی لوٹے نہ لوٹے
مگر ایسا ہی کچھ کہہ تو گیا ہے
اگے گی اب سحر تیرہ رتوں میں
کوئی غم کے ستارے بو گیا ہے
میں تو روز اکیلی رویا کرتی ہوں
روتے روتے اکثر سویا کرتی ہوں
خوفزدہ ہوں منزل کے اندیشوں سے
راہوں میں دانستہ کھویا کرتی ہوں
پانی کم ہو تو آنکھوں کی جھیلوں میں
چن چن کر یہ اشک سمویا کرتی ہوں
لمحہ لمحہ ہے میرا مصروف بہت
جگمگ جگمگ زخم پرویا کرتی ہوں
صبح نہ جانے تکیہ کیوں ہوتا ہے سرخ
رات تو میں پانی سے بھگویا کرتی ہوں
کل کے داغ مٹانا کل پہ رکھا ہے
آج تو آج کا دامن دھویا کرتی ہوں
سوچ سمندر کے اکثر خواب سفر میں
تھک کر اپنا آپ ڈبویا کرتی ہوں