کتنے کوہ ِ گراں کاٹے تب صبح ِ طرب کی دید ہوئی
اور یہ صبح طرب بھی یارو کہتے ہیں بیگانی سی ہے
Printable View
کتنے کوہ ِ گراں کاٹے تب صبح ِ طرب کی دید ہوئی
اور یہ صبح طرب بھی یارو کہتے ہیں بیگانی سی ہے
لمحہ لمحہ خواب دکھائے اور سو سو تعبیر کرے
لذت کم آزار بہت ہے جس کا نام جوانی ہے
آپ بھی کیسے شہر میں آ کر شاعر کہلائے ہیں علیم
درد جہاں کم یاب بہت ہے نغموں کی ارزانی ہے
یہ کنارے سے لپیٹی ہوئی موج
کبھی طوفاں بھی اٹھا لائے گی
صورت ِ زلف یہ تلوار سی رات
جیسے دل ہی میں اتر جائے گی
سننے والو اسے بھی سن لینا
صورت ِ زخم بھی ہے اک آواز
آنکھوں میں روشنی بھی ہے ویرانیاں بھی ہیں
اک چاند ساتھ ساتھ ہے اک چاند گہنا گیا
ہزار طرح کے صدمے اٹھانے والے لوگ
نہ جانے کیا ہوا اک آن میں بکھر سے گئے
کچھ نہیں سیکھا ہم نے جنوں سے ہاں مگر اتنا سیکھا ہے
اتنی اس کی عزت کی جو عشق میں جتنا رسوا ہے
میں روتا ہوں کہ زخم ِ آرزو کو
دعا دیتا ہوا موسم نہیں ہے