آج کچھ وقتِ شام ہو جائے
بزم کا اہتمام ہو جائے
Printable View
آج کچھ وقتِ شام ہو جائے
بزم کا اہتمام ہو جائے
مئے نہیں میکدے میں گر ساقی
آج غم کا ہی جام ہو جائے
ایسی جلدی ہے کیا چلے جانا
دو گھڑی تو قیام ہو جائے
خوف ہے تم کو گر زمانے کا
آنکھ سے ہی سلام ہو جائے
دیکھ لے گر تمہیں وہ ایک نظر
بادشاہ بھی غلام ہو جائے
سن کے سب کو وہ راز سے بولے
چل ترا بھی کلام ہو جائے
ابھی چہرے کا اس نے بھولپن کھویا نہیں تھا
وہ باشندہ ہی اس دنیا کا تو گویا نہیں تھا
پڑی تھی درد کی وہ جھریاں چہرے پہ گہری
لگا جیسے وہ برسوں سے کبھی سویا نہیں تھا
وہ ڈرتا تھا کہ رونے کی سزا بھی ہو گی شاید
یہی رو رو کے کہتا تھا کہ وہ رویا نہیں تھا
سمجھ آتا کسی کو بارِ غم اس کا تو کیسے
کسی نے لاش کو اپنی کبھی ڈھویا نہیں تھا