اب تو اس طرح مری آنکھوں میں خواب آتے ہیں
جس طرح آئینے چہروں کو ترس جاتے ہیں
Printable View
اب تو اس طرح مری آنکھوں میں خواب آتے ہیں
جس طرح آئینے چہروں کو ترس جاتے ہیں
یا میرے دیے کی لو بڑھا دے
یا رات کو صُبح سے ملا دے
جب تک ہم مانوس نہیں تھے درد کی ماری دنیا سے
عارض عارض رنگ بہت تھے آنکھوں آنکھوں سحر بہت
بات کسی سے بھی کرو بات کسی کی بھی سنو
بیٹھ کے کاغذوں پہ تم نام وہی لکھا کر و
کتنے کوہِ گراں کاٹے تب صبحِ طرب کی دید ہوئی
اور یہ صبحِ طرب بھی یارو کہتے ہیں بیگانی ہے
اک طبع رنگ رنگ تھی سو نذرِ گُل ہوئی
اب یہ کہ ساتھ اپنے بھی رہتا نہیں ہوں میں
ہرے بھرے مرے خوابوں کو روندنے والو
خدائے زندہ زمیں پر اُتر بھی آتا ہے
یہ میرا عہد یہ میری دُکھی ہوئی آواز
میں آ گیا جو کوئی نوحہ گر بھی آتا ہے
اتنا ہی کہ بس نغمہ سرایانِ جہاں ہیں
ملتا نہیں کچھ اس کے سوا اپنا نشاں اور
اک اصل کے خواب میں کھو جانا
یہ وصل ہوا کہ وصال ہوا