ہیں کتنی منزلیں اس زندگی میں؟
ہر اک منزل ہماری عارضی ہے
Printable View
ہیں کتنی منزلیں اس زندگی میں؟
ہر اک منزل ہماری عارضی ہے
تری مرضی سے گر ہِلتا ہے پتّہ
سزا کس جرم کی پھر ہم کو دی ہے
ترے طوفان ہیں کشتی ہماری
ڈُبا اس کو جہاں یہ ڈوبتی ہے
جہاں میں راز سچی بات آخر
بھلا کس نے ، کسی سے ، کب کہی ہے
مرے اندر میرا اک ہم سفر ہے
وہ میری منزلوں سے بے خبر ہے
بھٹک کر لوٹ آتا ہوں ہمیشہ
صدا میں اس کی کچھ ایسا اثر ہے
میں تھک جاتا ہوں وہ رکتا نہیں ہے
مری منزل بھی اس کا رہ گزر ہے
نہ جانے پاؤں میں کتنے ہیں چھالے
مگر پھرتا وہ پھر بھی دربدر ہے
جہاں ، وہ آئینہ خانہ ہے جس میں
کہ ٹوٹا ہر بشر آتا نظر ہے
سفر تو راز کا لمبا بہت تھا
فسانہ پوچھئے تو مختصر ہے