کس قدر بچ کر چلا میں کتنا آہستہ چلا
مڑ کے جب دیکھا تو اپنا نقشِ پا کوئی نہ تھا
Printable View
کس قدر بچ کر چلا میں کتنا آہستہ چلا
مڑ کے جب دیکھا تو اپنا نقشِ پا کوئی نہ تھا
غم سے سب ہارے ہوئے تھے زندگی کی دوڑ میں
سورما بھی تھے مگر جیتا ہوا کوئی نہ تھا
رات کچھ ایسا لگا جیسے سحر سی ہو گئی
اک دیا بس جل رہا تھا بولتا کوئی نہ تھا
راز تھے احباب اپنے دوست اور محبوب بھی
جو نبھاتا ایک رشتہ درد کا ، کوئی نہ تھا
جس کا جی چاہے فقیروں کی دعا لے جائے
کل ہمیں جانے کہاں وقت اٹھا لے جائے
خدمت خلق سے ہستی کو فروزاں کر لے
کیا پتہ کون سی ظلمت میں قضا لے جائے
اس لیے کوئی جہاں سے نہ گیا کچھ لے کر
کیا ہے دنیا میں ، کوئی ساتھ بھی کیا لے جائے
بانٹ دے سب میں یہ خوشیاں جو ملی ہیں تجھ کو
اس سے پہلے کہ کوئی ان کو چرا لے جائے
تو جسے ڈھونڈ رہا ہے وہ تیرے اندر ہے
خود سے ملوانے تجھے کون بھلا لے جائے
آندھیاں تو نہ ہلا پائیں تجھے راز مگر
اب اُڑا کر نہ کہیں بادِ صبا لے جائے