تو پاس بھی ہو تو دل بیقرار اپنا ہے
کہ ہم کو تیرا نہیں انتظار اپنا ہے
Printable View
تو پاس بھی ہو تو دل بیقرار اپنا ہے
کہ ہم کو تیرا نہیں انتظار اپنا ہے
ملے کوئی بھی ترا ذکر چھیڑ دیتے ہیں
کہ جیسے سارا جہاں راز دار اپنا ہے
وہ دور ہو تو بجا ترکِ دوستی کا خیال
وہ سامنے ہو تو کب اختیار اپنا ہے
زمانے بھر کے دکھوں کو لگا لیا دل سے
اس آسرے پہ کہ اک غمگسار اپنا ہے
بلا سے جاں کا زیاں ہو اس اعتماد کی خیر
وفا کرے نہ کرے پھر بھی یار اپنا ہے
فرازؔؔ راحتِ جاں بھی وہی ہے کیا کیجیے
وہ جس کے ہاتھ سے سینہ فگار اپنا ہے
جس سے یہ طبیعت بڑی مشکل سے لگی تھی
دیکھا تو وہ تصویر ہر اک دل سے لگی تھی
تنہائی میں روتے ہیں کہ یوں دل کو سکوں ہو
یہ چوٹ کسی صاحبِ محفل سے لگی تھی
اے دل ترے آشوب نے پھر حشر جگایا
بے درد ابھی آنکھ بھی مشکل سے لگی تھی
خلقت کا عجب حال تھا اس کوئے ستم میں
سائے کی طرح دامنِ قاتل سے لگی تھی