بس انتہا ہے چھوڑئیے بس رہنے دیجئے
خود اپنے اعتماد سے شرما گیا ہوں میں
Printable View
بس انتہا ہے چھوڑئیے بس رہنے دیجئے
خود اپنے اعتماد سے شرما گیا ہوں میں
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں
نکلا تھا میکدے سے کہ اب گھر چلوں عدمؔ
گھبرا کے سوئے میکدہ پھر آگیا ہوں
میکدہ تھا ، چاندنی تھی ، میں نہ تھا
اک مجسم بے خودی تھی ، میں نہ تھا
عشق جب دم توڑتا تھا ، وہ نہ تھے
موت جب سر دھن رہی تھی ، میں نہ تھا
طور پر چھیڑا تھا جس نے آپ کو
وہ میری دیوانگی تھی ، میں نہ تھا
جس نے مہ پاروں کے دل پگھلا دیے
وہ تو میری شاعری تھی ، میں نہ تھا
دیر و کعبہ میں عدم حیرت فروش
دو جہاں کی بد ظنی تھی ، میں نہ تھا
مے نہیں قصرِ زندگانی ہے
روشنی ہے ، ہوا ہے ، پانی ہے
آج دل ڈوبنے سے ڈرتا ہے
دیکھ دریا میں کتنا پانی ہے