بھولنا چاہا تھا ا ن کو اے عدم
پھر وہ صبح و شام یاد آنے لگے
Printable View
بھولنا چاہا تھا ا ن کو اے عدم
پھر وہ صبح و شام یاد آنے لگے
غموں کی رات بڑی بے کلی سے گزری ہے
گزر گئی ہے مگر جاں کئی سے گزری ہے
مسیح و خضر کی عمریں نثار ہوں اس پر
وہ زندگی کی گھڑی جو خوشی سے گزری ہے
خزاں تو خیر خزاں ہے ، ہمارے گلشن سے
بہار بھی بڑی آزردگی سے گزری ہے
گزر تو خیر گئی ہے عدم حیات مگر
ستم ظریف بڑی بے رُخی سے گزری ہے
گلوں سے دوستی ہے ، شبنم ستانوں میں رہتا ہوں
بڑے دلچسپ اور شاداب رومانوں میں رہتا ہوں
کنارے پر نہ کیجئے گا زیادہ جستجو میری
کہ میں لہروں کا متوالا ہوں ، طوفانوں میں رہتا ہوں
میں دانستہ حقائق کی ڈگر سے لوٹ آیا ہوں
میں تفریحاً طرب انگیز افسانوں میں رہتا ہوں
پتہ پوچھے کوئی میرا عدم تو اس سے کہہ دینا
میں سچے اور بھولے بھالے انسانوں میں رہتا ہوں
گلوں سے دوستی ہے ، شبنم ستانوں میں رہتا ہوں
بڑے دلچسپ اور شاداب رومانوں میں رہتا ہوں