گہر جب آنکھ سے ٹپکا زمیں میں جذب ہوا
وہ ایک لمحہ بڑا با وقار گزرا تھا
Printable View
گہر جب آنکھ سے ٹپکا زمیں میں جذب ہوا
وہ ایک لمحہ بڑا با وقار گزرا تھا
جو تیرے شہر کو گلگوں بہار بخش گیا
قدم قدم بسرِ نوکِ خار گزرا تھا
وہ جس کے چہرے پہ لپٹا ہوا تبسم تھا
چھپائے حسرتیں دل میں ہزار گزرا تھا
جسے میں اپنی صدا کا جواب سمجھا تھا
وہ اک فقیر تھا، کر کے پکار گزرا تھا
ترے بغیر بڑے بے قرار ہیں، آسی
ترا وجود جنہیں ناگوار گزرا تھا
ہماری یاد بھی آئی تو ہو گی
پھر آنکھوں میں نمی چھائی تو ہو گی
مرا نام آیا ہو گا جب زباں پر
تری آواز بھرّائی تو ہو گی
سرِ رَہ دیکھ کر چھینٹے لہو کے
ہماری یاد بھی آئی تو ہو گی
اب دو عالم سے صدائے ساز آتی ہے مجھے
دل کی آہٹ سے تری آواز آتی ہے مجھے
جھاڑ کر گردِ غمِ ہستی کو اڑ جاؤں گا میں
بے خبر! ایسی بھی اک پرواز آتی ہے مجھے