ریگ زاروں میں بیٹھ کر ہم لوگ
آرزوئے بہار کرتے ہیں
Printable View
ریگ زاروں میں بیٹھ کر ہم لوگ
آرزوئے بہار کرتے ہیں
چوٹ پر چوٹ کھائے جاتے ہیں
اور پھر اعتبار کرتے ہیں
اہلِ ادراک پر مرے اشعار
راز کچھ آشکار کرتے ہیں
یہ کسی راز داں کا تحفہ ہے
غیر کب ایسے وار کرتے ہیں
مجھ کو حیرت بھی ہے مسرت بھی
وہ مرا انتظار کرتے ہیں
میرے پاس آ کے لوگ تیرا ہی
ذکر کیوں بار بار کرتے ہیں
سوچ کر بات کیجئے صاحب
آپ، اور ہم سے پیار کرتے ہیں
چاند چہروں کی سادگی پہ نہ جا
تیر کرنوں سے وار کرتے ہیں
بات کرنے کا فائدہ؟ سو، ہم
خامشی اختیار کرتے ہیں
دوستوں سے کبھی ملو آسی
وہ گِلے بے شمار کرتے ہیں