ابھی نہ کوئی پیمبر نہ میں کوئی اوتار
اے مری روشنی طبع مجھ کو اور سنوار
Printable View
ابھی نہ کوئی پیمبر نہ میں کوئی اوتار
اے مری روشنی طبع مجھ کو اور سنوار
ہنسو تو رنگ ہوں چہرے کا روؤ تو چشم ِ نم میں ہوں
تم مجھ کو محسوس کرو تو ہر موسم میں ہوں
تو اپنی آواز میں گم ہے، میں اپنی آواز میں چپ
دونوں بیچ کھڑی ہے دنیا آئینۂ الفاظ میں چپ
پاؤ گے کہاں پناہ لوٹ آؤ
گھر ہو گیا ہے تباہ لوٹ آؤ
وہ رات بے پناہ تھی اور میں غریب تھا
وہ جس نے یہ چراغ جلایا عجیب تھا
دیکھا اُسے تو طبع رواں ہو گئی مری
وہ مسکرا دیا تو میں شاعر ادیب تھا
اس ہجرتی کو کام ہوا ہے کہ رات دن
بس وہ چراغ اور وہ دیوار دیکھنا
یہ اندھیرے تو سمٹ جائیں گے اک دن اے دوست
یاد آئے گا تجھے مجھ سے گریزاں ہونا
انسان ہو، کسی بھی صدی کا، کہیں کا ہو
یہ جب اٹھا ضمیر کی آواز سے اٹھا
دیکھ کر قد قیامت سوچ کر زلفیں دراز
اپنی ہی رفتار کے نشے میں ہے رفتار دوست