کوئی گمان مجھے تم سے دور کیسے کرے
کہ اعتبار مرے چار سو ابھی تک ابھی تک ہے
Printable View
کوئی گمان مجھے تم سے دور کیسے کرے
کہ اعتبار مرے چار سو ابھی تک ابھی تک ہے
جو اس کے چہرے پہ رنگ حیا ٹھہر جائے
تو سانس، وقت، سمندر، ہوا ٹھہر جائے
وہ مسکرائے تو ہنس ہنس پڑیں کئی موسم
وہ گنگنائے تو باد صبا ٹھہر جائے
سبک خرام صبا چال چل پڑے جب بھی
ہزار پھول سر راہ آ ٹھہر جائے
وہ ہونٹ ہونٹوں پہ رکھ دے اگر دم آخر
مجھے گماں ہے کہ آئی قضا ٹھہر جائے
میں اس کی آنکھوں میں جھانکوں تو جیسے جم جاؤں
وہ آنکھ جھپکے تو چاہوں ذرا ٹھہر جائے
ضائع کرتے تھے ملاقاتوں کو
ہم سمجھتے ہی نہ تھے باتوں کو
ان کو عادت ہے میری آنکھوں کی
کون سمجھائے گا برساتوں کو
کتنے معصوم ہے وہ لوگ کہ جو
کچھ سمجھتے ہی نہیں راتوں کو
وہ مجھے دام میں لینے کے لیے
کام میں لایا مداراتوں کو