مجھے اضطراب کی چاہ تھی مجھے بے کلی کی تلاش تھی
انھیں خواہشات کے جرم میں کوئی گھر نہیں کوئی در نہیں
Printable View
مجھے اضطراب کی چاہ تھی مجھے بے کلی کی تلاش تھی
انھیں خواہشات کے جرم میں کوئی گھر نہیں کوئی در نہیں
کوئی چاند ٹوٹے یا دل جلے یا زمیں کہیں سے ابل پڑے
اہم اسیر صورت حال ہیں ہمیں حادثات کا ڈر نہیں
اے ہوائے موسم ذرا مجھے ساتھ رکھ میرے ساتھ چل
میرے ساتھ میرے قدم نہیں میرے پاس میری نظر نہیں
یہ جو عمر بھر کی ریاضتیں یہ نگر نگر کی مسافتیں
یہ تو روگ ہیں مہ وسال کا یہ تو گردشیں ہیں سفر نہیں
میں نے دیکھا دیوانوں کو شام کے بعد
ڈھونڈ رہے تھے ویرانوں کو شام کے بعد
تاریکی پھر سارے عیب چھپا لے گی
لے آنا گھر مہمانوں کو شام کے بعد
میں نے اس کا سوگ منایا کچھ ایسے
خالی رکھا پیمانوں کو شام کے بعد
یاد کرے جب مجھ کو تیری تنہائی
دیکھا کرنا گلدانوں کو شام کے بعد
فرحت چاند کے خوف سے کر لیتا ہوں بند
کمرے کے روشن دانوں کو شام کے بعد
دیدۂ نم میں سکوں ڈھونڈتے ہیں
ہم تیرے غم میں سکوں ڈھونڈتے ہیں