شہر تو سو بھی چکا مر بھی چکا
ایک رہ گیر سلا لینے دو
Printable View
شہر تو سو بھی چکا مر بھی چکا
ایک رہ گیر سلا لینے دو
آنکھ گھبرا ہی نہ جائے فرحتؔ
رنگ تعبیر سلا لینے دو
ِ شہر ویران کے دروازے کے لگ کر روئے
اپنی پہچان کے دروازے سے لگ کر روئے
اپنا پتھر تھا مکاں اس کا کہ یوں لگتا تھا
ہم بیابان کے دروازے سے لگ کر روئے
اب تو ہم کتنی دفعہ آنکھوں کی عادت کے طفیل
غم کے امکان کے دروازے سے لگ کر روئے
اب اگر ٹوٹ گئے ہو تو شکایت کیسی
کیوں کسی مان کے دروازے سے لگ کر روئے
ہم ستائے ہوئے دنیا کے تیرے بعد اکثر
تیرے احسان کے دروازے سے لگ کر روئے
کوئی آواز تسلی نہ دلاسہ نکلا
کیسے انسان کے دروازے سے لگ کر روئے
ہم نے کب دل سے کہا تھا بھری برساتوں میں
تیرے پیمان کے دروازے سے لگ کر روئے
دل کے دروازے پہ روئے تو لگا ہے فرحت
جیسے زندان کے دروازے سے لگ کر روئے