درد کے دریا میں غوطہ زن ہوا غوّاصِ شوق
موج خود کشتی بنی، گرداب چپو کر دئے
Printable View
درد کے دریا میں غوطہ زن ہوا غوّاصِ شوق
موج خود کشتی بنی، گرداب چپو کر دئے
حُسن کی بے اعتنائی کو بس اتنا سا خراج؟
کیا کِیا قرباں اگر دو چار آنسو کر دئے
سایۂ دیوارِ جاناں ظلِ طوبیٰ سے سوا
اُس نے یہ کیا کہہ دیا، الفاظ خوشبو کر دئے
زندگی اک دم حسیں لگنے لگی مجذوب کو
اک نگاہِ ناز نے کیا کیا نہ جادو کر دئے
وقتِ رخصت پیش کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں
اشک جتنے تھے ترے آنے پہ جگنو کر دئے
تھا وہ اک یعقوب آسی دفعتاً یاد آ گیا
میری گردن میں حمائل کس نے بازو کر دئے
گلی کوچے لہو سے اٹ گئے ہیں
بس اک جنگل کا رستہ رہ گیا ہے
بڑے تو بند ہو بیٹھے گھروں میں
گلی میں ایک بچہ رہ گیا ہے
ضمیرِ آدمیت سخت جاں تھا
ستم گر ہاتھ ملتا رہ گیا ہے
دمِ ہجرت کہا بچے نے رو کر
مرا ٹوٹا کھلونا رہ گیا ہے