ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
تمام عمر رفو گر رہے رفو کرتے
Printable View
ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
تمام عمر رفو گر رہے رفو کرتے
جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے
بیاضِ گردنِ جاناں کو صبح کہتے جو ہم
ستارۂ سحری تکمۂ گُلو کرتے
یہ کعبہ سے نہیں بے وجہ نسبتِ رخ ِیار
یہ بے سبب نہیں مردے کو قبلہ رُو کرتے
سکھاتے نالۂ شب گیر کو در اندازی
غمِ فراق کا اس چرخ کو عدو کرتے
وہ جانِ جاں نہیں آتا تو موت ہی آتی
دل و جگر کو کہاں تک بھلا لہو کرتے
پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ، جو باراں کی آرزو کرتے
محبت سے بنا لیتے ہیں اپنا دوست دشمن کو
جھکاتی ہے ہماری عاجزی سرکش کی گردن کو
نقاب اس آفتاب حسن کا اندھیر رکھتا ہے
رخ روشن چھپا کر سب کیا ہے روز روشن کو
اڑاتے دولتِ دنیا کو ہیں ہم عشق بازی میں
طلائی رنگ پر صدقے کیا کرتے ہیں کندن کو