چلو سوچوں کے جگنو پالتے ہیں
کہ امیدِ سحر باقی نہیں ہے
Printable View
چلو سوچوں کے جگنو پالتے ہیں
کہ امیدِ سحر باقی نہیں ہے
خبر لو، ساکنانِ رہ گزر کی
کہیں گردِ سفر باقی نہیں ہے
وہی انداز ہیں فطرت کے لیکن
کوئی اہلِ نظر باقی نہیں ہے
خدا کی رحمتیں تو منتظر ہیں
دعاؤں میں اثر باقی نہیں ہے
بادل سوچوں کے، کس سے منسوب کروں
جلتے اندیشے کس سے منسوب کروں
اپنے گرد فصیل بنائی خود میں نے
غم تنہائی کے کس سے منسوب کروں
دور کہیں سے رونے کی آواز آئی
اے دل، یہ صدمے کس سے منسوب کروں
روشنیوں کا قاتل کس کو ٹھہراؤں
قاتل اندھیرے کس سے منسوب کروں
راتیں تو اکثر آنکھوں میں کٹتی ہیں
ان دیکھے سپنے کس سے منسوب کروں
کرچی کرچی ہونے کا دکھ اپنی جگہ
پتھر جو برسے، کس سے منسوب کروں