بسیط قلزمِ ہستی سہی مگر میں تو
انا کی قید میں ہوں، ذات کے حباب میں ہوں
Printable View
بسیط قلزمِ ہستی سہی مگر میں تو
انا کی قید میں ہوں، ذات کے حباب میں ہوں
ترے دلائل و منطق پہ گنگ فرزانے
میں ایک شاعرِ دیوانہ کس حساب میں ہوں
فقیہِ شہر! مرا اصل مسئلہ یہ ہے
کسی سوال میں شامل نہ میں جواب میں ہوں
سروں کی خیر مناؤ، دراز قد لوگو!
وہ سنگ ہوں کہ نہاں سرمئی سحاب میں ہوں
پڑا جو دستِ ستم گر، تو خون اگلے گا
مثالِ خار چھپا پردۂ گلاب میں ہوں
خدائے عرش، مرے حال پر کرم فرما
نماز پڑھ کے بھی الجھا ہوا ثواب میں ہوں
تیرگی میں سجھائی کیا دے گا
روشنی کے پیام کیا کیا تھے
میں اسے دیکھتا تھا، وہ مجھ کو
خامشی میں کلام کیا کیا تھے
لوگ پہچانتے نہیں اب تو
آپ تھے تو سلام کیا کیا تھے
شہر میں ہم اداس رہتے ہیں
دشت میں شاد کام کیا کیا تھے