راستوں کو آزمانا چاہئے
حوصلوں کو آزمانا چاہئے
Printable View
راستوں کو آزمانا چاہئے
حوصلوں کو آزمانا چاہئے
’آ رہی ہے چاہِ یوسف سے صدا‘
بھائیوں کو آزمانا چاہئے
چند گھاؤ اور بڑھ جائیں تو کیا!
بیڑیوں کو آزمانا چاہئے
شہر پر پھر چھا رہی ہے تیرگی
جگنوؤں کو آزمانا چاہئے
بالارادہ بھول کر رستہ کبھی
رہبروں کو آزمانا چاہئے
تم کو آسی جی اب اپنی سوچ کے
برزخوں کو آزمانا چاہئے
جب ذہنوں میں خوف کی ٹیسیں اٹھتی ہیں
دب جاتی ہیں جتنی سوچیں اٹھتی ہیں
سر تو سارے خم ہیں بارِ غلامی سے
ایوانوں میں صرف کلاہیں اٹھتی ہیں
الفت میں رخنے بھی اتنے پڑتے ہیں
جتنی اوپر کو دیواریں اٹھتی ہیں
حد نظر تک کوئی سفینہ بھی تو نہیں
کس کے لئے یہ سرکش موجیں اٹھتی ہیں