سیلِ گریہ سے مرے نیند اڑی مردم کی
فکرِ بام و در و دیوار نے سونے نہ دیا
Printable View
سیلِ گریہ سے مرے نیند اڑی مردم کی
فکرِ بام و در و دیوار نے سونے نہ دیا
ایک شب بلبلِ بے تاب کے جاگے نہ نصیب
پہلوئے گُل میں کبھی خار نے سونے نہ دیا
سچ ہے غم خواریِ بیمار عذابِ جاں ہے
تا دمِ مرگ دلِ زار نے سونے نہ دیا
یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُو برُو کرتے
ہم اور بلبلِ بے تاب گفتگو کرتے
تکیہ تک پہلو میں اس گُل نے نہ رکھا آتش
غیر کو ساتھ کبھی یار نے سونے نہ دیا
باغِ عالم میں رہیں خواب کی مشتاق آنکھیں
گرمیِ آتشِ گلزار نے سونے نہ دیا
پیام بر نہ میّسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے
سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مُو کرتے
لٹاتے دولتِ دنیا کو میکدے میں ہم
طلائی ساغر مئے نقرئی سبُو کرتے