تری بندہ پروری سے مرے دن گزر رہے ہیں
نہ گلہ ہے دوستوں کا ، نہ شکایت زمانہ
Printable View
تری بندہ پروری سے مرے دن گزر رہے ہیں
نہ گلہ ہے دوستوں کا ، نہ شکایت زمانہ
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
فردوس جو تیرا ہے ، کسی نے نہیں دیکھا
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں ، بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
چپ رہ نہ سکا حضرت یزداں میں بھی اقبال
کرتا کوئی اس بندہ گستاخ کا منہ بند!
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
تو ابھی رہ گزر میں ہے ، قید مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر ، پارس و شام سے گزر
تیرا امام بے حضور ، تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر ، ایسے امام سے گزر!
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے ، نہ من تیرا نہ تن