دن تو اپنا ایسے تیسے بِیت ہی جاتا ہے لیکن
رات کو لگتا ہے ڈر، اس شہر کی آب و ہوا سے
Printable View
دن تو اپنا ایسے تیسے بِیت ہی جاتا ہے لیکن
رات کو لگتا ہے ڈر، اس شہر کی آب و ہوا سے
عقل والوں نے غلامی کی نئی دستاریں پہنیں
ہم بچا لے جائیں سر، اس شہر کی آب و ہوا سے
خونِ تازہ بن کے دوڑوں گا بہاروں کی رگوں میں
خاک بھی ہو جاؤں گر، اس شہر کی آب و ہوا سے
پھر ثمود و عاد کا سا دَور جیسے آ گیا ہو
دوڑ کر آسی گزر، اس شہر کی آب و ہوا سے
آؤ کچھ ذکرِ روزگار کریں
دورِ حاضر کے غم شمار کریں
اور بھی بوجھ ہیں اسی سر پر
آرزوئیں کہاں سوار کریں
آپ نقصان سہہ نہ پائیں گے
آپ دل کا نہ کاروبار کریں
ہم سے تو بے رخی نہیں ہوتی
جو بھی چاہیں، ہمارے یار، کریں
آبلہ پا پیام چھوڑ گئے
لوگ نظارۂ بہار کریں
ہے تقاضائے غیرتِ امروز
زورِ بازو پہ انحصار کریں