مرا نام آیا ہو گا جب زباں پر
تری آواز بھرّائی تو ہو گی
Printable View
مرا نام آیا ہو گا جب زباں پر
تری آواز بھرّائی تو ہو گی
سرِ رَہ دیکھ کر چھینٹے لہو کے
ہماری یاد بھی آئی تو ہو گی
وہ ملتے ہی نہیں، لیکن یقیناً
وہاں اپنی پذیرائی تو ہو گی
زمانہ ہم کو آخر جان لے گا
نہ ہو گا نام، رسوائی تو ہوگی
میں اپنے دوستوں کو جانتا ہوں
انہوں نے آگ بھڑکائی تو ہو گی
محبت کا ترانہ کوئی چھیڑو
کسی کے پاس شہنائی تو ہو گی
کوئی صحرا سے آسی کو بلا لو
حرارت سے شناسائی تو ہو گی
پنجۂ زغ تیز تر، اس شہر کی آب و ہوا سے
جھڑ گئے چڑیوں کے پر، اس شہر کی آب و ہوا سے
شور مٹی، زہر پانی اور کچھ لُو کے تھپیڑے
جل گئے کتنے شجر، اس شہر کی آب و ہوا سے
توڑ پھینکے پھول بندھن خود پرستی کی ہوا نے
ٹوٹتے جاتے ہیں گھر، اس شہر کی آب و ہوا سے