بڑا زمانہ ہوا کسی نے محبتوں کے دئیے جلائے
انھی چراغوں کی روشنی نے بھرم کسی کا رکھا ہوا ہے
Printable View
بڑا زمانہ ہوا کسی نے محبتوں کے دئیے جلائے
انھی چراغوں کی روشنی نے بھرم کسی کا رکھا ہوا ہے
ابھی تو شاخوں میں زندگی ہے، ابھی تو پھولوں میں تازگی ہے
مگر خزاں اور بادِ صرصر نے ایک ڈر سا لگا دیا ہے
نہ نقشِ پا ہیں نہ بانگِ چنگ و درا کسی نے سنی ہے لیکن
یہ خاک سی کیسی اڑ رہی ہے کہ راستہ سارا اٹ گیا ہے
اک ایک دانے کو ایک دنیا تڑپ رہی ہے سسک رہی ہے
ادھر خدائی کے دعویداروں نے سارا غلہ جلا دیا ہے
مجھے شرابِ طہور کہہ کر وہ زہرِ قاتل پلا رہے ہیں
میں کیا کہوں کن مروتوں نے مری زباں کو جکڑ لیا ہے
مجھے سخن ور نہ کوئی کہنا کہ میں تو تاریخ لکھ رہا ہوں
نہ یہ غزل ہے نہ شاعری ہے یہ آج کے دن کا ماجرا ہے
مرے رفیقوں کی پھول سی وہ نصیحتیں سب ہیں یاد مجھ کو
مگر یہ میرا قلم ہے آسی، کہ لفظ کانٹے اگا رہا ہے
ربابِ دل کے نغمہ ہائے بوالعجب چلے گئے
جو آ گئے تھے شہر میں، وہ بے ادب چلے گئے
میں اپنی دھن میں گائے جا رہا تھا نغمہ ہائے جاں
مجھے نہیں کوئی خبر کہ لوگ کب چلے گئے
سیاہ رات رہ گئی ہے روشنی کے شہر میں
دکھا کے چاند تارے اپنی تاب و تب چلے گئے