لے کے پھرتی ہیں رُتیں شوخ ادائیں تیری
پھُول کھِل کھِل کے مجھے یاد دلائیں تیری
Printable View
لے کے پھرتی ہیں رُتیں شوخ ادائیں تیری
پھُول کھِل کھِل کے مجھے یاد دلائیں تیری
اشک دے گا پتہ ضرور اپنا
خاک میں یہ نمی سمانے دو
یہ اعادہ ہی بچپنے کا سہی
کُچھ گھروندے مگر بنانے دو
جن پہ سُورج کبھی نہیں اُبھرا
وُہ اُفق اب کے جگمگانے دو
سیج پر شاخِ آرزُو سے گری
پتّیاں تُم مجھے بچھانے دو
پھینک کر اب کے آخری پتّا
کھیل کو رُخ نیا دلانے دو
گُنگ جذبوں کو چہچہانے دو
لفظ مُنہ پر کوئی تو آنے دو
کرتا ہے کیوں سخن میں عبث نقش کاریاں
ماجدؔ صلہ بھی کوئی تُجھے کچھ ملے گا کیا
یہ لطفِ دید، یہ ترا پیکر الاؤ سا
منظر نگاہ پر کوئی ایسا کھُلے گا کیا
خواہش کا چاند آ ہی گیا جب سرِ اُفق
باقی کوئی حجاب بھلا اب رہے گا کیا