مچلنا، مُسکرانا، رُوٹھ جانا
لہومیں اِک تلاطم نِت اُٹھانا
Printable View
مچلنا، مُسکرانا، رُوٹھ جانا
لہومیں اِک تلاطم نِت اُٹھانا
بُہت سینچ بیٹھے ہو ماجدؔ غزل کو نمِ دردِ جاں سے
اگر ہو سکے تو ذرا اِس میں من کے تقاضے بھی لاؤ
بُلاتی ہے خود ابر کو دیکھ لو اپنی جانب یہ کھیتی
تمہارا بدن کہہ رہا ہے ’’لہومیں مرے سر سراؤ‘‘
یہ تنہا روی ترک کر دو کہ اِس میں فقط ٹھوکریں ہیں
مکّرر جسے جسم چاہے کوئی ضرب ایسی بھی کھاؤ
وہی جو گرہ ہے تمہارے مرے عہدِ وابستگی کی
وہ انگشتری بھی کبھی وقت کی انگلیوں میں سجاؤ
تمہیں کتنی حسرت سے کہتی ہے میری یہ تشنہ سماعت
بھنچے ہیں جو لب تو نگاہوں سے ہی کوئی نغمہ سناؤ
ہواؤں میں اپنی مہک کب تلک یوں بکھرنے نہ دو گے
حجاب اِس طرح کے ہیں جتنے بھی وہ درمیاں سے اُٹھاؤ
لبوں کے اُفق پر دمکتا ہُوا کوئی سورج اُگاؤ
رگوں میں مچلتی تمازت کبھی تو زباں پر بھی لاؤ
میرے جذبات کہ رقصاں ہیں بہ چشم و لب و دل
دیکھ یہ مور بھی لیتے ہیں بلائیں تیری
تیرے پیکر کا گماں یُوں ہے فضا پر جیسے
پالکی تھام کے پھرتی ہوں ہوائیں تیری