نِکھری رُتوں کا حسن، فضا سے چرائیں ہم
آؤ کہ جسم و جاں کے شگوفے کھلائیں ہم
Printable View
نِکھری رُتوں کا حسن، فضا سے چرائیں ہم
آؤ کہ جسم و جاں کے شگوفے کھلائیں ہم
لکھا ہے یہ اُس کا نام ماجِد
یا پھول سرِورق کھلا ہے
ممکن نہیں اُس تلک رسائی
اُس شخص کی اور ہی ادا ہے
یہ دل کہ حزیں ہے مدّتوں سے
پُوچھا نہ کسی نے کیوں بُجھا ہے
شیریں ہے ہر ایک بات اُس کی
وہ جو بھی کہے اُسے روا ہے
میں آگ تھا پر سُخن نے اُس کے
گلزار مجھے بنا دیا ہے
بے نطق نہیں نگاہ اپنی
بے تاب لہوکی یہ صدا ہے
مجھ سے وُہ بچھڑ کے پھر چلا ہے
پھر فکر و نظر میں زلزلہ ہے
کبھی ماجدؔ کے حرفوں میں بھی اُترو
بڑی مُدّت سے تنہا ضو فشاں ہو
مرے افکار کی بنیادِ محکم
مرے جذبات کی ناطق زباں ہو