اب تو وا ہو کسی پہلو ترے دیدار کا در
یہ حجابات تو اب سخت گراں بار ہوئے
Printable View
اب تو وا ہو کسی پہلو ترے دیدار کا در
یہ حجابات تو اب سخت گراں بار ہوئے
چھیڑ کر بیٹھ رہے قصّۂ جاناں ماجدؔ
جب بھی ہم زیست کے ہاتھوں کبھی بیزار ہوئے
تن میں ترے مشعلیں جلاؤں
یہ رنگ بھی آ، تجھے دکھاؤں
چاہت کا وہ سِحر تُجھ پہ پھونکوں
رگ رگ میں قیامتیں مچاؤں
تکمیل کروں کبھی تو اپنی
تجھ کو سرِ جسم و جاں سجاؤں
مخفی پسِ لب کلی کلی کے
جو راز ہے، وُہ تجھے بتاؤں
مَیں خود ہی جواب جن کا ٹھہروں
ایسے بھی سوال کُچھ اُٹھاؤں
غنچوں کی چٹک ہو جس پہ شیدا
وُہ زمزمہ اَب کے گنگناؤں
ہر لُطف ہے اِس میں ہر مزہ ہے
ماجدؔ کی غزل ہے کیوں نہ گاؤں
تو نمایاں ہے یُوں نگاروں میں
آئنہ جیسے ریگ زاروں میں