کھینچ کر تلوار قاتل نے کیا مجھ کو نہ قتل
شکر ہے گردن تک آتے آتے احساں رہ گیا
Printable View
کھینچ کر تلوار قاتل نے کیا مجھ کو نہ قتل
شکر ہے گردن تک آتے آتے احساں رہ گیا
شامِ ہجراں صبح بھی کر کے نہ دیکھا روزِ وصل
سانپ کو کچلا پر آتش ، گنج پنہاں رہ گیا
ہے جب سے دستِ یار میں ساغر شراب کا
کوڑی کا ہو گیا ہے کٹورا گلاب کا
صیاد نے تسلیِ بلبل کے واسطے
کنجِ قفس میں حوض بھرا ہے، گلاب کا
دریائے خوں کیا ہے تری تیغ نے رواں
حاصل ہوا ہے رتبہ سروں کو، حباب کا
جو سطر ہے، وہ گیسوئے حورِ بہشت ہے
خالِ پری ہے نقطہ، ہماری کتاب کا
نور آسماں ہیں صفحۂ اوّل کے نو لغت
کونین، اک دو ورقہ ہے اپنی کتاب کا
اے موجِ بے لحاظ، سمجھ کر مٹائیو
دریا بھی ہے اسیرِ طلسمِ حباب کا
اک ترک شہسوار کی دیوانی روح ہے
زنجیر میں ہمارے ہو لوہا رکاب کا
حسن و جمال سے ہے زمانے میں روشنی
شب ماہتاب کی ہے، تو روز آفتاب کا