اداس رکھتی ہے دن بھر یہ بازگشت مجھے
صدا کی گونج میں پیہم پکار باقی ہے
Printable View
اداس رکھتی ہے دن بھر یہ بازگشت مجھے
صدا کی گونج میں پیہم پکار باقی ہے
جو رات ہجر کی گزری تمہارے پہلو میں
اس ایک شب کا ابھی تک خمار باقی ہے
جو گھاؤ بھر گیا اس کا نشان ہے اب تک
اس ایک زخم پہ اب بھی بہار باقی ہے
وہ یاد بھولی ہوئی داستاں سہی لیکن
وہی مزاجِ سدا سوگوار باقی ہے
رات کو کیسے سحر کر پائیں گے تیرے بغیر
چھوڑ کر مت جا ہمیں مر جائیں گے تیرے بغیر
کون لپٹے گا گلے سے پیار سے دیکھے گا کون
یاد کی باہوں سے دل بہلائیں گے تیرے بغیر
زندگی کے شہر میں خاموشیاں چھا جائیں گی
اور سناٹوں میں ہم گھبرائیں گے تیرے بغیر
رات بھر باتیں کریں گے ہم تری تصویر سے
اور تیرا غم کسے بتلائیں گے تیرے بغیر
فاصلوں سے ضبط کا ہم کو تو اب یارا نہیں
خود کو کیسے کس طرح سمجھائیں گے تیرے بغیر
جب زندگی کے راستے دشوار ہو گئے
ہم حادثوں سے بر سر پیکار ہو گئے