گلی گلی میں خموشی پہن کے پھرتا تھا
کوئی تو تھا کہ کہیں ہم زباں نہ تھا جس کا
Printable View
گلی گلی میں خموشی پہن کے پھرتا تھا
کوئی تو تھا کہ کہیں ہم زباں نہ تھا جس کا
بات جو ہوتی ہے بے بات ہوا کرتی ہے
اب خرابوں میں ملاقات ہوا کرتی ہے
صبح سے شام تو ہو جاتی ہے جیسے کیسے
درد بڑھ جاتا ہے جب رات ہوا کرتی ہے
ہے عجب عالمِ محرومیِ افسردہ دلاں
سادہ ہوتے ہیں جنہیں مات ہوا کرتی ہے
روز سجتے ہیں نئے زخم مژہ پر میری
روز دہلیز پہ بارات ہوا کرتی ہے
ہجر چبھنے لگے آنکھوں میں آ جانا کبھی
وصل کا لمحہ بھی سوغات ہوا کرتی ہے
تمہارے وصل کا بس انتظار باقی ہے
میں رنگ رنگ ہوں لیکن سنگھار باقی ہے
ابھی تو چوٹ ہے آئی گلاب سے مجھ کو
ابھی تو راہ میں اک خار زار باقی ہے
ہوائیں تھم گئیں ، گروو غبار بیٹھ گیا
اک اپنی ذات کا بس انتشار باقی ہے
تمام عمر دیا میں نے جس کو اپنا لہو
اُسی چراغ پہ اب تک نکھار باقی ہے