یہ کون ہے کہ جو تنہائی پر بھی راضی ہے
یہ قتل گاہ سے واپس نہ جانے والا کون
Printable View
یہ کون ہے کہ جو تنہائی پر بھی راضی ہے
یہ قتل گاہ سے واپس نہ جانے والا کون
بدن کے نقرئی ٹکڑے، لہو کی اشرفیاں
ادھر سے گزرا ہے ایسے خزانے والا کون
یہ کس کے نام پہ تیغِ جفا نکلتی ہوئی
یہ کس کے خیمے، یہ خیمے جلانے والا کون
ابھرتے ڈوبتے منظر میں کس کی روشنیاں
کلامِ حق سرِ نیزہ سنانے والا کون
ملی ہے جان تو اس پر نثار کیوں نہ کروں
توٗ اے بدن، مرے رستے میں آنے والا کون
سنو کہ بول رہا ہے وہ سر اتارا ہوا
ہمارا مرنا بھی جینے کا استعارہ ہوا
یہ سرخ پھول سا کیا کھل رہا ہے نیزے پر
یہ کیا پرندہ ہے شاخِ شجر پہ وارا ہوا
چراغِ دشت بجھا اور ملا اشارۂ غیب
کہ آسمان پہ ظاہر کوئی ستارہ ہوا
کبھی مرا چمنِ درد سوکھتا ہی نہیں
رِدا ہٹی تو وہی زخم آشکارا ہوا
سب داغ ہائے سینہ ہویدا ہمارے ہیں
اب تک خیام دشت میں برپا ہمارے ہیں