وہ ہے کسی کا مگر اس کی صحبتیں مجھ سے
خراج لیتی ہیں کیسا محبتیں مجھ سے
Printable View
وہ ہے کسی کا مگر اس کی صحبتیں مجھ سے
خراج لیتی ہیں کیسا محبتیں مجھ سے
جو دے رہا ہے کہیں اور روشنی اپنی
ستم کہ اس کے بدن میں ہیں حدتیں مجھ سے
عجیب شخص ہے کم گو ہے،کم نظر بھی ہے
کہ جس کے حرفِ وفا میں ہیں شدتیں مجھ سے
کبھی کبھی کے کہے اپنے چند جملوں میں
خرید لے گیا عمروں کی مدتیں مجھ سے
اس انتظارِ مسلسل کی حد کہاں ہو گی
سوال کرتی ہی رہتی ہیں فرقتیں مجھ سے
ذہن پر اس طرح سے چھائے ہو
گاہ پیکر ہو گاہ سائے ہو
بھول جانے کی آرزو کی ہے
اور شدت سے یاد آئے ہو
یوں بھی ہونے لگا جنوں میں کبھی
میرے ہونٹوں سے مسکرائے ہو
کس طرح میں تمہیں چھپا رکھوں
تم مری روح میں سمائے ہو
کیسے مانوں کہ تم نہیں میرے
کیسے کہہ دوں کہ تم پرائے ہو