بساطِ عشق میں جو شہ رخوں کی ہم سر تھی
یہ کیا ہوا وہی تقدیر پا پیادہ ہوئی
Printable View
بساطِ عشق میں جو شہ رخوں کی ہم سر تھی
یہ کیا ہوا وہی تقدیر پا پیادہ ہوئی
برکھا بھی ہو لبوں پہ ذرا پیاس بھی رہے
پھر سے فریب دے کہ کوئی آس بھی رہے
مدت سے انتظار تھا اپنا بہت مگر
خود سے لپٹ کے رونا ہمیں راس بھی رہے
تُو لاکھ دور دور سے دیکھے ہمارے خواب
اپنا وہی لگے ہے کہ جو پاس بھی رہے
اک ہو مکاں ہماری تمنا میں مضطرب
اور دسترس میں اپنی ، یہ بن باس بھی رہے
خوشیوں کی کیا دلیل ہوں مجبور قہقہے
ہنسنے لگیں تو درد کا احساس بھی رہے
ہر حرفِ اعتبار لٹانے کے بعد بھی
یہ کیا ہوا ، فریبِ غم و یاس بھی رہے
وصل کا عالم رہا ہے ہجر کے ماروں کے بیچ
تُو نظر آتا رہا ہے رات بھر تاروں کے بیچ
راکھ ہو جاتے ہیں اپنے شوق میں اہل جنوں
پھول الفت کے کھلا کرتے ہیں انگاروں کے بیچ
کو بہ کو رسوائیاں دیتی ہیں دل کو حوصلے
منزلیں خود چل کے آ جاتی ہیں دیواروں کے پیچ