جو کچھ بچ رہا تھا مرا خونِ دل
وہی آسماں پر شفق ہو گیا
Printable View
جو کچھ بچ رہا تھا مرا خونِ دل
وہی آسماں پر شفق ہو گیا
سنا نے چلے تھے انہیں حالِ دل
نظر ملتے ہی رنگ فق ہو گیا
ستم کا عدو مستحق ہو گیا
مرا دل سراپا قلق ہو گیا
اللہ ری، مری تیز روی جوشِ جنوں میں
مڑ کر جو نظر کی تو بیاباں نہیں دیکھا
بےکار گئی سعئ محبت بھی ہماری
حاصل بجز اک دیدہ ء حیراں نہیں دیکھا
اللہ ری، مجبوری ء آدابِ محبت
گلشن میں رہے اور گلستاں نہیں دیکھا
تازہ اثر، اے جذبۂ پنہاں نہیں دیکھا
مدت ہوئی شمشیر کو عریاں نہیں دیکھا
اِس عشق میں پورا کبھی ساماں نہیں دیکھا
دامن پہ نظر کی تو گریباں نہیں دیکھا
نالے کرتے ہوئے رہ رہ کے یہ آتا ہے خیال
کہ مری طرح نہ دل تھام کے رہ جائیں آپ
چاندنی رات میں مہتاب سلگتا دیکھوں
نیند کی آگ میں اک خواب کو جلتا دیکھوں