یہ سمجھ لو کہ غمِ عشق کی تکمیل ہوئی
ہوش میں آ کے بھی جب ہوش میں آئے نہ بنے
Printable View
یہ سمجھ لو کہ غمِ عشق کی تکمیل ہوئی
ہوش میں آ کے بھی جب ہوش میں آئے نہ بنے
کس قدر حُسن بھی مجبورِ کشا کش ہے کہ آہ
منہ چھُپائے نہ بنے، سامنے آئے نہ بنے
ہائے وہ عالمِ پُر شوق کہ جس وقت جگر
اُس کی تصویر بھی سینے سے لگائے نہ بنے
اگر شامل نہ درپردہ کسی کی آرزُو ہوتی
تو پھر اے زندگی ظالم، نہ میں ہوتا، نہ تُو ہوتی
اگر حائل نہ اُس رخ پر نقابِ رنگ و بُو ہوتی
کسے تابِ نظر رہتی، مجالِ آرزو ہوتی؟
نہ اک مرکز پہ رُک جاتی، نہ یوں بے آبرُو ہوتی
محبت جُستجُو تھی، جُستجُو ہی جُستجُو ہوتی
ترا ملنا تو ممکن تھا، مگر اے جانِ محبوبی!
مرے نزدیک توہین مذاق جستجو ہوتی
نگاہِ شوق اُسے بھی ڈھال لیتی اپنے سانچے میں
اگر اِک اور بھی دنیا ورائے رنگ و بُو ہوتی
انہیں جب سے ہے اعتمادِ محبت
وہ مجھ سے جگر بد گماں اور بھی ہیں
صبا! خاکِ دل سے بچا اپنا دامن
ابھی اس میں چنگاریاں اور بھی ہیں