یہ موجِ دریا، یہ ریگ صحرا، یہ غنچہ و گل یہ ماہ و انجم
ذرا جو وہ مسکرا دیئے ہیں، یہ سب کے سب مسکرا رہے ہیں
Printable View
یہ موجِ دریا، یہ ریگ صحرا، یہ غنچہ و گل یہ ماہ و انجم
ذرا جو وہ مسکرا دیئے ہیں، یہ سب کے سب مسکرا رہے ہیں
فضا یہ نغموں سے بھر گئی ہے کہ موجِ دریا ٹھہر گئی ہے
سکوت نغمہ بنا ہوا ہے، وہ جیسے کچھ گنگنا رہے ہیں
اب آگے جو کچھ بھی ہو مقدر، رہے گا لیکن یہ نقش دل پر
ہم ان کا دامن پکڑ رہے ہیں، وہ اپنا دامن چھڑا رہے ہیں
ذرا جو دم بھر کو آنکھ جھپکی، یہ دیکھتا ہوں نئی تجلی
طلسم صورت مٹا رہے ہیں، جمال معنی بنا رہے ہیں
سن تو اے دل یہ برہمی کیا ہے؟
آج کچھ درد میں کمی کیا ہے؟
دیکھ لو! رنگِ روئے ناکامی!
یہ نہ پوچھو، کہ بے بسی کیا ہے
اپنی ناکامئ طلب کی قسم!!
عین دریا ہے، تشنگی کیا ہے
جسم محدود، روح لا محدود
پھر یہ اک ربطِ باہمی کیا ہے
زخم وہ دل پہ لگا ہے کہ دکھائے نہ بنے
اور چاہیں کہ چھُپا لیں تو چھُپائے نہ بنے
ہائے بےچارگیِ عشق کہ اس محفل میں
سر جھُکائے نہ بنے، آنکھ اٹھائے نہ بنے