بنتی ہے بری کبھی جو دل پر
کہتا ہوں برا ہوعاشقیکا
Printable View
بنتی ہے بری کبھی جو دل پر
کہتا ہوں برا ہوعاشقیکا
ماتم سے مرے وہ دل میں خوش ہیں
منہ پر نہیں نام بھی ہنسی کا
اتنا ہی تو بس کسر ہے تم میں
کہنا نہیں مانتے کسی کا
جو دم ہے وہ ہے بسا غنیمت
سارا سودا ہے جیتے جی کا
آغاز کو کون پوچھتا ہے
انجام اچھا ہو آدمی کا
روکیں انہیں کیا کہ ہے غنیمت
آنا جانا کبھی کبھی کا
ایسے سے جو داگ نے نباہی
سچ ہے کہ یہ کام تھا اسی کا
کس نے کہا کہ داغ وفا دار مرگیا
وہ ہاتھ مل کے کہتے ہیں کیا یار مر گیا
دام بلائےعشقکی وہ کشمکش رہی
ایک اک پھڑک پھڑک کے گرفتار مرگیا
آنکھیں کھلیہوئی پس مرگ اس لئے
جانے کوئی کہ طالب دیدار مرگیا