تو بھی او نا آشنائے درد دل
کاش ہوتا مبتلائے درد دل
Printable View
تو بھی او نا آشنائے درد دل
کاش ہوتا مبتلائے درد دل
درد دل میرے لئے گر ہے تو ہو
میں نہیں ہر گز برائے درد دل
مجھ سے شاید رہ نہ جائے کچھ کمی
آپ ہی دے لیں سزائے درد دل
کچھ تغافل، کچھ توجہ، کچھ غرور
دیکھنا شان عطائے درد دل
درد دل! غیرت تیری کیا ہو گئی
ان لبوں پر اور ہائے درد دل !
رند جو مجھ کو سمجھتے ہیں، انہیں ہوش نہیں
میکدہ ساز ہوں میں، میکدہ بر ہوش نہیں
کونسا جلوہ یہاں آتے ہی بے ہوش نہیں
دل مرا دل ہے، کوئی ساغر سر جوش نہیں
حسن سے عشق جدا ہے نہ جدا عشق سے حسن
کونسی شئے ہے، جو آغوش در آغوش نہیں؟
مٹ چکے ذہن سے سب یاد گذشتہ کے نقوش
پھر بھی اک چیز ہے ایسی کہ فراموش نہیں
کبھی ان مد بھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام
آج تک ہوش نہیں، ہوش نہیں، ہوش نہیں !