مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے
Printable View
مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے
کاروبار جہاں سنوارتے ہیں
ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے
اوس پڑے بہار پر، آگ لگے کنار میں
تم جو نہیں کنار میں، لطف ہی کیا بہار میں
اس پہ کرے خدا رحم گردش ِ روزگار میں
اپنی تلاش چھوڑ کر جو ہے تلاش ِ یار میں
ہم کہیں جانے والے ہیں دامن ِ عشق چھوڑ کر
زیست تیرے حضور میں، موت تیرے دیار میں
تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہو گا
صدائے ساز ہو گی اور نہ ساز بے صدا ہو گا
ہمیں معلوم ہے ہم سے سنو محشر میں کیا ہو گا
سب اس کو دیکھتے ہونگے، وہ ہم کو دیکھتا ہو گا
جہنم ہو کہ جنت، جو بھی ہو گا، فیصلہ ہو گا
یہ کیا کم ہے، ہمارا اور ان کا سامنا ہو گا
ازل ہو یا ابد، دونوں اسیر ِ زلف ِ حضرت ہیں
جدھر نظریں اٹھاؤ گے، یہی اک سلسلہ ہو گا
جگر کا ہاتھ ہو گا حشر میں اور دامن ِ حضرت
شکایت ہو کہ شکوہ جو بھی ہو گا، برملا ہو گا